والدین کا رشتہ بڑا مقدس ہوتا ہے۔ ماں باپ کے بغیر بچوں کی دنیا کبھی مکمل نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کی فطری طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے والدین ہرلحاظ سے مکمل ہوں۔ اس طرح ہر عورت کا یہ خواب ہوتا ہے کہ اس کا ایک پرسکون گھر ہو جبکہ خوشگوار ازدواجی تعلقات بھی ہر مرد اور عورت کی ضرورت ہوتے ہیں لیکن عام طور پر بہت کم خاندان ایسے ہیں جہاں یہ تمام مثبت چیزیں ایک ساتھ دیکھنے کو ملتی ہوں
ایک انگریز کا مقولہ: ایک انگریز کا مقولہ ہے کہ جب ’’دوافراد ایک ساتھ خاندانی زندگی گزارنے کا اہتمام کرتے ہیں تو دراصل وہ اپنے لیے مستقل دباؤ کا ذریعہ تشکیل دیتے ہیں‘‘ مگر کوئی بھی شخص اس مقولے سے پوری طرح اتفاق نہیں کرسکتا۔ اگر ایسا ہو تو دنیا سے نہ صرف خاندانی نظام کا خاتمہ ہوجائے بلکہ اخلاقی اقدار کا وجود بھی باقی نہ رہے۔ دنیا کے ہر مذہب نے شادی کے مقدس بندھن کو صرف تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ اسے ایک صاف ستھرے اور آئیڈیل معاشرے کیلئے لازمی قرار دیا ہے تاہم جب دو افراد ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں تو بعض اوقات سوچوں میں اختلاف جھگڑے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اختلاف رائے ہونا کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ دیکھا جائے تو یہ ازدواجی زندگی کا حسن ہے۔
لڑائی کے بچوں پر اثرات:ہمارے معاشرے میں لاتعداد جوڑے موجود ہیں جن کے درمیان نہ ختم ہونے والی لڑائیاں جاری ہیں لیکن وہ محض بچوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے والدین کے بچوں پر ماں باپ کی لڑائی کے انتہائی ناخوشگوار نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں بے شمار ایسی مثالیں ہیں‘ ایسے بیشتر گھرانے موجودہیں جہاں بچے اسی طرح کے ماحول میں انتہائی دباؤ اور پریشانی کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کے والدین کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔
ہماری ایک جاننے والی تبسم اے خان کی ذہنی حالت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ اسے ماہر نفسیات سے رجوع کرنا پڑا۔ تبسم کے مطابق والدین کے مسلسل اور مستقل جھگڑوں نے اسے بیمار کردیا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کی بیماری کی اصل وجہ اس کے والدین کے درمیان ہونے والی آئے دن کی لڑائیاں ہیں۔ تبسم نے بتایا کہ اس کے والدین ایک دوسرے کا قطعی احترام نہیں کرتے اور ہم سے مخاطب ہوتےہی ’’تمہارا باپ‘ تمہاری ماں‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور لڑائی کے دوران تو ان کے الفاظ کہیں زیادہ سخت ترین ہوتے ہیں۔ تبسم کے مطابق دونوں ارادی یا غیر ارادی طور پر یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہم ان میں سے کسی ایک کی طرف داری کریں‘ ہمارا گھر میدان جنگ ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پہلا فائر کب اور کون کس وقت کردے؟ اس ماحول نے مجھے اور میرے بھائی کو والدین سے دور کردیا ہے‘ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہماری دونوں میں سے کسی سے بھی کوئی بات نہ ہو۔
تبسم کے بھائی نے بتایا کہ میں زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتا ہوں‘ میرا کوئی قریبی دوست بھی نہیں ہے سوائے اپنی بہن کے۔ شادی کے بارے میں بھی ہم دونوں کے خیالات مختلف نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی نازک‘ غیرپائیدار قسم کا رشتہ ہے اور میرا خیال ہے کہ اذیت ناک بھی ہے۔
ماہر نفسیات کا اتفاق:ماہر نفسیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسے والدین جو بچوں کے سامنے لڑتے جھگڑتے ہیں بچوں کی شخصیات تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں۔ شعبہ نفسیات کی ایک پروفیسر نے کہا کہ ایسے والدین کو میرا مشورہ ہے کہ خدا کیلئے وہ بچوں کے سامنے لڑائی نہ کریں۔ ماں باپ کے جھگڑے بچوں کو شناختی بحران کی طرف لے جاتے ہیں بلکہ بچوں پر ذہنی ہی نہیں جسمانی حوالے سے بھی اثرانداز ہوتے ہیں‘ عزت نفس متاثر ہوتی ہے اور ان کا خود پر سے اعتماد جاتا رہتا ہے اور اس کے اثرات زندگی بھر بچوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خود اعتمادی اور عزت نفس ایک ایسا عنصر ہے جو مضبوط شخصیت سازی کیلئے بنیادی کردار کا حامل ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جن بچوں کے والدین آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں وہ بعض اوقات اپنے ہم عمر بچوں کے مقابلے میں زیادہ باشعور اور سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ تعلیم پر توجہ دیتے ہیں اور ان میں جلد سے جلد خود اعتماد اور آزاد زندگی گزارنے کا احساس بڑی تیزی سے پیدا ہوتا ہے وہ خود کو مثالی والدین بنانے کے بارے میں بھی سوچتے ہیں اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں تاہم بعض ماہری نفسیات اس سے اتفاق نہیں کرتے‘ ان کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں ہمیشہ ایسا ہی ہو بلکہ ایسے بچوں کیلئے اپنے شریک زندگی سے خوشگوار تعلقات رکھنے میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق جہاں والدین کے تعلقات آپس میں اچھے نہیں ہوتے وہاں بچوں میں مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے بھی امکانات دیگر خاندانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی مثال انہوں نے اٹھارہ سالہ مدحت کی پیش کی ہے جو چھاتی کا آپریشن کرواچکی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں میں جسمانی مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ وہ مستقل دباؤ ہوتا ہے جس سے وہ گزر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا دفاعی نظام انتہائی کمزور ہوجاتا ہے اور عام طور پر ایسے ہی گھرانوں کے بچے نشہ کرتے ہیں‘ اس کے علاوہ چوری‘ ڈیپریشن‘ ایگزائیٹی‘ خودکشی کی کوشش کرنا یا گھروں سے بھاگ جانا یا بلاوجہ لوگوں پر غصہ اتارنا جیسے رویوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایسے والدین جو کسی بھی وجہ سے لڑائی جھگڑوں کے باوجود ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کرچکے ہوتے ہیں یا ایک ساتھ نہ رہنے کے باوجود انہیں اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ انہیں بہرحال ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے اور وہ معاشرے کی حدود یا پھر اپنی بعض مجبوریوں کے باعث الگ زندگی نہیں گزار سکتے تو ان حالات میں وہ خود میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں